بیٹے کا باپ کی طرف سے قربانی کرنا کیسا ہے جبکہ بیٹا صاحب نصاب ہے ؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ امید ہے کے آپ خیریت سے ہونگے۔
حضرت سوال یہ ہے کہ اگر باپ بیٹے سے الگ ہے اور بیٹے کے پاس اتنا مال ہے کے اس پر قربانی واجب ہے تو بیٹا کس کے طرف سے قربانی کریگا اپنے نام سے یا باپ کے نام۔
محمّد مشکوٰۃ
🕋 باسمہ تعالی 🕋
🌿 وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 🌿
✒️ الجواب بعونه تعالي ✒️
اولا تو یہ سمجھ لیں کہ ہر فرد پر (خواہ والدین ہوں یا اولاد ہوں یا بیوی ہو) قربانی اس کے اعتبار سے واجب ہوتی ہے،
اگر والدین صاحبِ نصاب ہو تو خود اس پر قربانی واجب ہوگی اور اگر اولاد صاحب نصاب ہے تو خود اس پر قربانی واجب ہوتی ہے،یہ الگ بات ہے کہ والدین یا اولاد کی اجازت سے دوسرا شخص قربانی کردے تو ذمہ سے وجوب ساقط ہو جاتا ہے
صورت مذکورہ میں جب بیٹا صاحب نصاب ہے تو صرف بیٹے پر اس کی قربانی واجب ہوگی،باپ صاحب نصاب نہیں ہے اس لیے باپ پر قربانی واجب نہیں ہے،
ہاں اگر بیٹا ان کی طرف سے بطور نفل قربانی کرنا چاہیے تو ایک حصہ ان کی طرف سے بھی کر سکتا ہے لیکن پہلے اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے،
آگر کسی نے صاحب نصاب ہونے کے باوجود اپنی طرف سے قربانی نہیں کیا بلکہ باپ کی طرف سے یا دوسرے کی طرف سے کر دیا تو اس کے ذمے سے وجوب ساقط نہیں ہوگا،
جرسی گائے اور بھینس کی قربانی کا حکم
مزید پڑھیں:میت کی طرف سے قربانی کرنے کا شرعی حکم
📗 والحجة على ماقلنا 📗
فَتَجِبُ) التَّضْحِيَةُ: أَيْ إرَاقَةُ الدَّمِ مِنْ النَّعَمِ عَمَلًا لَا اعْتِقَادًا
(عَلَى حُرٍّ مُسْلِمٍ مُقِيمٍ) بِمِصْرٍ أَوْ قَرْيَةٍ أَوْ بَادِيَةٍ عَيْنِيٌّ، فَلَا تَجِبُ عَلَى حَاجٍّ مُسَافِرٍ؛ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ فَتَلْزَمُهُمْ وَإِنْ حَجُّوا، وَقِيلَ لَا تَلْزَمُ الْمُحْرِمَ سِرَاجٌ (مُوسِرٌ) يَسَارَ الْفِطْرَةِ (عَنْ نَفْسِهِ لَا عَنْ طِفْلِهِ) عَلَى الظَّاهِرِ،
(الشامي كتاب الاضحية)ج/٩/ص/٤٥٤/م/دار الكتب العلميةبيروت
وأما شرائط الوجوب منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة،
(الفتاوي الهندية كتاب الاضحية الباب الاول)ج/٥/ص/٣٦٠/م/دار الكتب العلميةبيروت لبنان
فتاوي قاسمية ج/٢٢
کتاب النوازل/١٤
فتاوی محمودیہ/٢٦
والله أعلم بالصواب
بنده حقير مفتي شمس تبريز قاسمي والمظاهري
رابطہ:7983145589
٢٦/ذوالقعدہ/یوم الاثنین/١٤٤٣
0 تبصرے